Skip to main content

Posts

Showing posts with the label Muhammad Iqbal

Quote World

Quote World Where can I found those quotes? You will all the quotations here. Here are the links of quotes or quotation sites:  Do you want to read Funny Quotes? Visit this page: Funny Quotes Do you want to read Success Quotes? Visit this page:  Success Quotes Do you want to read Business Quotes? Visit this page:  Business Quotes Do you want to read Health Quotes? Visit this page:  Health Quotes

ایک آرزو

ایک آرزو دُنیا کی محفِلوں سے اُکتا گیا ہُوں یا ربَِ   کیا لُطف انجمن کا جب دِل ہی بُجھ گیا ہو   شورش سے بھاگتا ہُوں ، دِل ڈھونڈتا ہے میرا  ایسا سکوُت جس پر تقدیر بھی فِدا ہو  مرتا ہوں خامشی پر ، یہ آرزو ہے میری  دامن میں کوہ کے اِک چھوٹا سا جھونپڑا ہو  آزاد فکر سے ہوں ، عُزلت میں دِن گُزاروں  دُنیا کے غم کا دِل سے کانٹا نِکل گیا ہو  لذّت سَرود کی ہو چڑیوں کے چہچہوں میں  چشمے کی شورَشوں میں باجا سا بج رہا ہو  گُل کی کلی چٹک کر پیغام دے کسی کا  ساغر ذرا سا گویا مجھ کو جہاں نُما ہو  ہو ہاتھ کا سَرَھانا، سبزے کا ہو بِچھونا  شرمائے جس سے جَلوَت ، خَلوَت میں وہ ادا ہو  مانُوس اِس قدر ہو صُورت سے میری بُلبُل  ننّھے سے دِل میں اُس کے کھٹکا نہ کُچھ مِرا ہو  صف باندھے دونوں جانب بُوٹے ہرے ہرے ہوں  ندِّی کا صاف پانی تصوِیر لے رہا ہو ہو  دِل فریب ایسا تصویر کا نظارہ  پانی بھی موج بن کر، اُٹھ اُٹھ کے دیکھتا ہو  آغوش میں زمِیں کی سویا ہوُا ہو سبزہ  پھر پھر کے جھاڑِیوں میں پانی چمک رہا ہو  پانی کو چھُو رہی ہو جُھک جُھک کے گُل کی ٹہنی  جیسے حَسِین کوئی، آئینہ دیکھتا ہو  مہندی لگائے سُورج جب شام

اے ہمالہ

اے ہمالہ اے ہمالہ! اے فصیل کشور ہندوستاں چومتا ہے تیری پیشانی کو جھک کر آسماں تجھ میں کچھ پیدا نہیں دیرینہ روزی کے نشاں تو جواں ہے گردش شام و سحر کے درمیاں ایک جلوہ تھا کلیم طور سینا کے لئے تو تجلی ہے سراپا چشم بینا کے لئے امتحان دیدہ ظاہر میں کوہستاں ہے تو پاسناں اپنا ہے تو، دیوار ہندستاں ہے تو مطلع اول فلک جس کا ہو وہ دیواں ہے تو سوئے خلور گاہ دل دامن کش انساں ہے تو برف نے باندھی ہے دستار فضیلت تیرے سر خندہ زن ہے جو کلاہ مہر عالم تاب پر تیری عمر رفتہ کی اک آن ہے عہد کہن وادیوں میں ہیں تری کالی گھٹائیں خیمہ زن چوٹیاں تیری ثریا سے ہیں سرگرم سخن تو زمیں پر اور پہنائے فلک تیرا وطن چشمہ دامن ترا آئینہ سیال ہے دامن موج ہوا جس لے لئے رومال ہے ابر کے ہاتھوں میں رہوار ہوا کے واسطے تازیانہ دے دیا برق سر کہسار نے اے ہمالہ کوئی بازی گاہ ہے تو بھی، جیسے دست قدرت نے بنایا ہے عناصر کے لئے ہائے کیا فرط طرب میں جھومتا جاتا ہے ابر فیل ہے زنجیر کی صورت اڑا جااتا ہے ابر جنبش موج نسیم صبح گہوارہ بنی جھومتی ہے نشہ ہستی میں ہر گل کی کلی یوں زبان برگ سے گویا ہے اس کی خامشی  دست گلچیں کی جھٹک میں نے نہیں دیک